Saturday, February 22, 2025

نوائے ٹیکسلا

سنگتراشوں کے دیس کا واحد ترجمان

تازہ ترین
حسن ابدال : دوست کو قتل کر کے نعش کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کرنے والا ملزم گرفتار، آلہ قتل برآمدبدفعلی کے مقدمہ میں نامزد ملزم عدالت سے باعزت بری، ملزم کی پیروی سید اکرار حیدر شاہ ایڈووکیٹ کر رہے تھےمریم نواز کے حکم پر تجاوزات کے خلاف آپریشن احسن اقدام ہے، طاہر محمود راجہ ایڈووکیٹتاج کمپلیکس آفس کی افتتاحی تقریب مہمان خصوصی ممبر ڈسٹرکٹ پرائس کنٹرول کمیٹی چوہدری نقاش اسلم نے فیتا کاٹ کر افتتاح کیاتجاوزات کوختم کرنے کے لئے رو زمرہ کی بنیاد پر اسکی سخت چیکنگ اور نگرانی کی جائے گی، اسسٹنٹ کمشنر ٹیکسلاگلستان کالونی واہ کینٹ میں 35 فٹ تجاوزات کی نشاندہی کا انکشافگندھارا ریسورس سینٹر پاکستان کے زیر اہتمام ٹیکسلا میں تیسرے اورنج فیسٹیول کی رنگا رنگ تقریبسی پی او سید خالد ہمدانی کی زیر صدارت پولیس لائنز ہیڈ کوارٹرز میں اجلاسڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اٹک ڈاکٹر سردار غیاث گل خان کی صدارت میں ڈی پی او آفس اٹک میں کرائم میٹنگ کا انعقادخان پور ڈیم سے راولپنڈی اور اسلام آباد کو پانی سپلائی 10 دنوں تک متاثر رہے گیٹیکسلا اینٹی ریپ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے سفاک ملزم کو سزا سنا دیآرمی چیف کا پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو سخت انتباہایم پی اے پی پی 12 ٹیکسلا محسن ایوب خان کی سابق وزیراعظم نوازشریف اور چیف منسٹر پنجاب مریم نواز شریف ،اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان سے ملاقاتہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کی تاریخی کامیابی،لائرز راول جنرل اینڈ ڈینٹل ہسپتال کا افتتاح کردیا گیاایس ایس پی آپریشنز کاشف ذوالفقار کا تھانہ نیوٹاؤن کا اچانک دورہ
لوکل نیوز

معلمین و معلمات (اساتذہ کرام) کا مقام و احترام اور اسلامی تعلیمات ۔ کالم نگار ،، مفتی محمد امتیاز الحق نورانی

قارئین کرام عصر حاضر میں استاذ کا احترام قلوب اذہان سے اٹھ چکا ہے۔ اساتذہ کرام کے ساتھ عموماً حسن سلوک کے بجاے مذموم وغیر منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے۔جبکہ اسلام نے معلم کو دینی و روحانی والد قرار دیا ہے۔
احترام معلم
طالب علم علم سے نفع نہیں پاسکتا جب تک کہ وہ علم کی اور معلم (ٹیچر) کی تعظیم و تکریم نہ کرے ۔ کیونکہ اس پر استاد کی تعظیم ، و تکریم واجب ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ جو بھی کسی بڑے مقام کو پہنچا ہے تو بڑوں اور اساتذہ کرام کی تعظیم ،توقیر کرنے سے پہنچا ہے،اور جو بھی کسی بڑے مرتبہ و مقام سے گرا ہے تو ترک تعظیم سے گرا ہے ،قارئین کرام۔
اگر چہ عصر حاضر میں مظلوم طبقات میں ایک نمایا طبقہ اساتذہ کرام کا بھی ہے لیکن اسلام نے معلمین و معلمات ، اساتذہ کرام ٹیچرز کی عظمت و شان ، مقام و مرتبے۔ کو جس ممدوح طریق سے اجاگر کیا اس کی نظیر دیگر سامی و غیر سامی مذہب میں نہیں ملتی۔استاذ کو اپنے شاگر د سے بے حد محبت ہوتی ہے وہ اس کا خیر خواہ ہوتا ہے، جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کی ترقی پر خوش ہوتا ہے ہو بہو اسی طرح معلمین و معلمات اساتذہ کرام بھی اپنے شاگرد سٹوڈنٹس، تلامذہ کی کامیابی پر خوش ناکامی پر غمگین ہوتے ہیں۔ اگر چہ عصر حاضر کے سٹوڈنٹس طلباء انٹر نیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کے سمندروں میں غوطہ زن ہونے کی وجہ سے اس حقیقت کا سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ میری ریسرچ تحقیق کے مطابق اساتذہ کرام کی اپنے تلامذہ شاگردوں سے بے غرض بے لوث ہوتی ہے ۔ یہ محبت نیک نیتی اور پاکیزگی پر مبنی ہوتی ہے ۔
اساتذہ کرام کا مقام۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں۔
معلم کائنات حضرت محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً ۔(ابن ماجہ) مجھے مُعلّم بناکر بھیجا گیا۔
حضرت ابو امامہ رضیہ اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی بندے کو اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن حکیم سے ایک آہت سکھائی تو وہ سکھانے والا اس سیکھنے والے کا سردار ہے۔ ( طبرانی).
حضرت ابو ہریرہ رضہ اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علم دین سیکھو اور دینی علم کے لیے وقار اور سنجیدگی سیکھو ، ان سے ( یعنی اساتذہ کرام سے ) متواضعانہ و خاکسارانہ برتاؤ رکھو جن سے تم علم دین کا علم سیکھتے ہو۔( الترغیب والترہیب)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں کہ تمہیں علم و حکمت سِکھاتا ہوں۔ استاذ کا درجہ باپ کے برابر ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ تیرے تین باپ ہیں، ایک وہ جو تیرے دنیا میں آنے کا باعث بنا، یعنی والد، دوسرا وہ، جس نے تجھے اپنی بیٹی دی، یعنی سسر اور تیسرا وہ، جس نے تجھے علم و آگہی سے نوازا، یعنی استاد( معلم)۔
معلم(استاد) کے احترام و مقام پر صحابہ کرام کے اقوال، اعمال، افعال ،
داماد مصطفی حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ جس نے مجے ایک حرف پڑھایا وہ میرا مالک ہے اگر چاہے تو مجھے بیچ ڈالے اور چاہے تو مجھے آزاد کر ڈالے اور اگر چاہے تو مجھے اپنا غلام بنا لیے،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آپ اتنی عظیم الشان اسلامی سلطنت کے خلیفہ ہیں، کیا اس کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے؟فرمایا کاش میں ایک معلّم ہوتا،حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فقہائےصحابہؓ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں، حدیث کی نقل و روایت اور فہم و درایت میں بھی بڑے اعلیٰ درجے کے مالک ہیں اُمت مسلمہ میں سب سے بڑے مفسر مانے گئے ہیں، لیکن اس مقام و مرتبے کے باوجود صورتِ حال یہ تھی کہ متعدد صحابہ کرام کے معلم(استاد) حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کی سواری کی رکاب تھام لیتے تھے اورکہتے تھے کہ ہمیں اہل علم کے ساتھ اسی سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔(مستدرک حاکم )۔
حجتہ الوداع کے موقع پر رحمت کونین جان کائنات معلم و مقصود کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ طلبہ، متعلمین ، سے پوچھا آج کون سا دن ہے ، یہ کونسا مہینہ ہے۔ پھر پوچھا یہ کونسا سا شہر ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام ۔ طلباء کرام ، متعلمین نے حتی کہ جلیل القدر صحابہ نے بھی معلم کائنات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب میں فقط یہی عرض کر سکے واللہ اعلم و رسولہ ۔ ادب مصطفی کی وجہ سے جانتے ہوے بھی جواب نہ دیا کہ یہ کونسا دن ہے ۔ یہ کونسا مہینہ ہے یہ کونسا شہر ہے۔ حج کرنے گے تھے جانتے تھے آج فلاں دن ہے ، یہ شہر ،شہر مکہ ہے، یہ مہینہ، ذوالحج ہے۔ لیکن معلم کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب احترام ،تعظیم و توقیر کی وجہ سے خاموش رہے۔ قارئین کرام اصح ترین روایات میں ہے کہ معلم و مقصود کائنات حضرت محمد مصطفی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے صحابہ کرام ۔ اپنے طلبہ سے اپنے پیارے جانثاروں سے مخاطب ہوتے انھیں جب کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے تو وہ اس قدر خاموشی کے ساتھ سکوت و یکسوئی کے ساتھ تعلمیات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنتے پرندے انھیں بے جان سمجھ کہ ان کے سروں پہ بیٹھ جاتے۔
استاد(معلم )کا احترام ائمہ کرام کے اقوال ۔
حضرت علی اوسط امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
اَلتَّعْظِیْمُ لَہُ:استاد کا احترام کرو۔
وَلَا تُحَدِّثُ فِیْ مَجْلِسِہٖ اَحَدًا:دورانِ کلاس استاد کے سامنے آپس میں بات نہ کرو۔
وَاَنْ تَدْفَعُ عَنْہُ اِذَا ذُکِرَ عِنْدَکَ بِسُوْءٍ:اگر کوئی استاد کی برائی کر رہا ہو تو اپنے استاد کا دفاع کرو۔
وَاَنْ تَسْتُرْ عُیُوْبَہُ وَتُظْھِرْ مَنَاقِبَہُ:اپنے استاد کے عیب چھپاؤ اور اپنے استاد کے اوصاف ظاہر کرو یعنی بیان کرو۔
اَکْرِمِ الْاُسْتَاذَ وَلَوْ کَانَ فَاسِقًا:استاد کا احترام کرو چاہے وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو۔وَلَا تُجِیْبَ اَحَدًا یَسْئَلُہُ عَنْ شَیْئٍ حَتّٰی یَکُوْنَ لَہُ ھُوَ الَّذِی یُجِیْبُ:استاد کی موجودگی میں اگر کوئی آدمی سوال کرے تو استاد محترم سے پہلے جواب نہ دو۔
امام احمد رضا حنفی قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں نہ بیٹھے۔چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔اگر وہ اندر ہو تو دروازہ نہ بجائے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔اگرچہ اس سے ایک ہی حرف پڑھا ہو اس کے سامنے عاجزی کرنےکا اظہار کرے۔اس کے حق کو اپنے ماں باپ بلکہ تمام مسلمانوں کے حق پر مقدم رکھے۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد کے ادب کی وجہ سے استاد کا نام نہ لیتے تھے بلکہ کنیت سے پکارتے تھے
۔علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جوشخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔۔امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں جب بھی اپنے والدین کے لیے دعا کرتا ہوں تو اپنے استاد کے لیےضرور دعا کرتا ہوں۔امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں اپنے والدین سے بھی پہلے استاد کے لیے دعا کرتا ہوں۔
حضرت سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال پوچھتا تو آپ اپنے استاد کے احترام میں جواب تک نہ دیتے ۔ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پشت لگاکر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا:آج جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ لوگوں نے عرض کی:حضور۔ آج یہ کیا ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے تھے فرمایا: میرےاستاد حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے،اس لئے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا۔ لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرت ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ ابھی حیات تھے۔بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور تاریخ نوٹ کرلی گئی۔جب بعد میں معلومات کی گئیں تو پتا چلا کہ آپ کے کلام سے تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔
۔امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:میرے استاد امام حماد رحمۃ اللہ علیہ جب تک زندہ رہے میں نے ان کے مکان کی طرف کبھی پاؤں نہ پھیلائے ،
امام سدید الدین شیرازی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ، کہ ہمارے مشائخ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیھم کا ارشاد گرامی ہے، کہ کوئی چاہے کہ اس کا بیٹا عالم دین بن جاے اسے چاہیے کہ وہ فقہاء و علماء میں سے غرباء کی مالی خدمت کرے اور انکی تعظیم و تکریم میں کسر نہ چھوڑے اور انہیں اچھی چیزیں کھلائے پلاۓ انہیں نذرانے اور ہدیے و تحائف دے اس طرح سے اس کا بیٹا اگر عالم دین نہ بھی بن سکا تو اسکا پوتا یا آنے والی نسل میں کوئی نا کوئی ضرور عالم دین بن جاۓ گا۔امام قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ انسان پر اپنے استاد کی کی عزت کرنا واجب ہے نیز اس کی سختی برداشت کرے ۔ استاد اگر اچھی بات بتاۓ یا کسی بری بات پر تنبیہ کرےتو اس کی شکر گزاری ضروری ہے، جب وہ کوئی نکتہ بتاۓ اگر چہ پہلے سے معلوم ہو تب بھی یہ ظاہر مت کرو کہ مجھے پہلے سے معلوم ہے ، استاذ کو کھبی ناراض نہیں کرنا چاہیے ،اگر اس کی شان میں خدا نخواستہ کوئی بے ادبی یا گستاخی ہو جاۓ تو فورا انتہائی عاجزی کے ساتھ معافی مانگ لیں، کیوں کہ اگر استاذ کا دل دکھی ہو گیا تو کھبی فیض نہیں ملتا، مفسرِقرآن امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فراماتے ہیں۔ میں نے جو بھی عزت اور شہرت حاصل کی ہے اس کا سبب استاد کی خدمت ہے۔
تفسیر کبیر میں مذکور ہے ۔استاد اپنے شاگرد کے حق میں والدین سے زیادہ شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور تکالیف سے بچاتے ہیں اور استاد اسے دوزخ کی آگ اور آخرت کے مصائب سے بچاتا ہے۔(تفسیر کبیر ،جلد 1)
علامہ اقبال کو جب برطانوی حکومت نے ،، سر ،،کا خطاب دینا چاہا تو انھوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ پہلے میرے استاد کو دیا جاۓ کیونکہ اقبال آج جو بھی ہے اپنے استاد کی وجہ سے ہے۔
رومی بادشاہ سکندر اعظم استاد کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں میں زندگی گزارنے کے لیے اپنے والد کا مقروض ہوں، مگر اچھی زندگی گزارنے کے لیے اپنے استاد کا مقروض ہوں۔
اساتذہ کرام کے احترام پر اہم واقعات ۔
قرآن حکیم کی سورۃ الکہف پارہ نمبر 15 کے آخر میں اور پارہ نمبر 16 کے شروع میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام مقامِ نبوت پر فائز تھے، لیکن انہوں نے نہایت صبر اور تحمل کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام کی باتوں کو برداشت کیا اور بار بار معذرت خواہی فرمائی چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے علم اسرار سیکھنے گے تھے۔نیز جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سفر مجمع البحرین پر اپنے شاگرد حضرت یوشع بن نون کو ساتھ لے کہ روانہ ہوے۔ حضرت یوشع بن نون کے پاس ٹوکری میں بوقت سفر ایک بھنی (پکی) ہوئی مچھلی تھی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے فرمایا تھا کہ جس جگہ یہ مچھلی زندہ ہو کہ پانی میں جانے لگے تو مجھے بتانا تو جس مقام پر مچھلی زندہ ہوئی سرنگ بناتے ہوئے پانی میں داخل ہوئی یہی وہ جگہ تھی جہاں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہونی تھی جوں ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اس جگہ پہنچے تو آرام فرمانے لگے سو گے۔ اور مچھلی زندہ ہو کہ پانی میں سرنگ بناتے ہوئے جانے لگی لیکن احتراماً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے شاگرد حضرت یوشع بن نون نے انھیں نیند سے نہیں اٹھایا ۔
امام اعظم ابوحنیفہؒ کے بارے میں منقول ہے کہ اپنے استاذ حمادؒ کے مکان کی طرف پاؤں کرنے میں بھی لحاظ ہوتا تھا، امام اعظم ابو حنیفہ نے خود اپنے صاحبزادےکا نام اپنے استاذ کے نام پر رکھا، قاضی ابو یوسفؒ کو اپنے استاذ امام ابوحنیفہؒ سے ایسا تعلق و پیار تھا کہ جس روز بیٹے کا انتقال ہوا ،اس روز بھی اپنے استاذ کی مجلس میں حاضری سے محرومی کو گوارا نہیں فرمایا۔مولانا محمد نور لقب متن متین(مرحوم) ڈنہ کچیلی مظفرآباد آزاد کشمیر ) اپنے گاؤں آزاد کشمیر سے ہندوستان کے شہر دہلی گے وہاں کے ایک درویش صفت عالم ( استاد) کی خدمت میں حاضر ہو کر دوسرے طلبہ کے ہمراہ علم حاصل کرنا شروع کیا خدا کی قدرت کے ابھی بلکل ابتدائی درجات کی تکمیل ہوئی تھی کہ متن متین کے استاد محترم کو جزام کی بیماری نے آگھیرا دوران بیماری تبیعت میں چڑچڑے پن کی وجہ سے تمام تلامذہ شاگرد ساتھ چھوڑ گے۔ مگر متن متین نے بیماری کے دوران اپنے استاد کو اکیلا چھوڑنا گوارا نہ کیا استاد کی دلجوئی اور خدمت کو اپنا مقصد حیات بنا لیا، خلق خدا سے مانگ کر اپنے استاد کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے علاؤہ استاد کا علاج بھی کروایا ،آخر کار اس ہونہار فرمانبردار اور عقیدت مند شاگرد کی محنت اپنا رنگ لائی اللہ تعالٰی نے بارہ سال بعد ان کے استاد محترم کو اس بیماری سے شفاء کاملہ عطا فرمائی ، صحت یابی کے بعد استاد نے ان سے اپنے دوسرے تلامذہ شاگردوں کے متعلق دریافت کیا ،تو معلوم ہوا کہ وہ سب بیماری کے ابتدائی ایام ہی میں استاد محترم کا ساتھ چھوڑ چکے تھے استاد نے متن متین سے پوچھا تو کیوں نہیں گیا ؟ متن متین نے عرض کی اپنے استاد محترم کو بیماری میں اکیلا کیسے چھوڑ سکتا تھا۔ استاد محترم نے پوچھا توں نے ان بارہ برسوں میں کیا سیکھا ہو گا۔ متن متین نے جواب دیا مجھے اپنے نہ سیکھنے پر بلکل بھی افسوس نہیں ابھی بڑی عمر ہے ۔ استاذجی آپ ماشااللہ صحت یاب ہو چکے ہیں ۔ آج ہی سے علوم اسلامیہ کے باقی درجات کی کتب پڑھنے کا آغاز کرتا ہوں۔ استاد محترم آپ مجھے اپنے سے الگ نہ کیجئے گا ۔ شاگرد کی کمال سعادت مندی و ادب دیکھ کہ استاد کی آنکھوں میں آنسو آگے آنکھیں اشک بار ہو گیں، استاد نے شاگرد کو سینے سے لگا کر فرمایا ۔ میں نے اپنی عرضی رب کائنات کی بارگاہ میں بھیج دی ہے۔ اس کار عظیم،نیز، اپنے استاد کی تعظیم و توقیر کے صلہ میں اللہ نے تمہیں اپنے وقت کا بہت بڑا عالم ،استاد،معلم، بناے گا ،دعائیہ کلمات کے ساتھ استاد محترم نے فرمایا میرے پاس رہ کر تیرے تمام درجات کی تکمیل ہو چکی ہے انہی کلمات کے ساتھ اپنے مثالی سٹوڈنٹ ، شاگرد کو استاد صاحب نے رخصت کیا۔انتہا درجے کا احترام ،ادب، کرنے کی وجہ سے شاگرد یعنی مولانا نور محمد المعروف متن متین کو علوم اسلامیہ میں درجہ علیا آخری درجہ تک کی تمام کتب یاد ہو گیں ۔ بعد ازاں مصر قاہرہ میں الازہر یونیورسٹی سے فقہ اسلامی میں سپیشلسٹ کیا پھر دنیا اسلام کی اس بڑی یونیورسٹی جامعہ الازہر ہی میں بحثیت معلم ، استاد، ٹیچر، چالیس سال تک پڑھایا، کچھ کتب بھی تصنیف کیں۔ اپنے استاد ،معلم ،ٹیچر.کا ادب کرنے کی وجہ سے اللہ نے ایک غریب شاگرد کو ہزاروں اساتذہ کا استاد بنا دیا۔خلف احمر مشہور امام لغت گزرے ہیں، امام احمد بن حنبل ان کے تلامذہ میں ہیں، لیکن علومِ اسلامی میں مہارت اور زہد و تقویٰ کی وجہ سے امام احمد بن حنبل کو اپنے استاذ سے بھی زیادہ عزت ملی، اس کے باوجود امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کبھی بھی اپنے استاد محترم خلف احمر کے برابر بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتے اور کہتے کہ آپ کے سامنے بیٹھوں گا، کیوںکہ ہمیں اپنے اساتذہ کے ساتھ تواضع اختیار کرنے کا حکم ہے۔ امام شافعی امام مالک کے شاگردوں میں ہیں، کہتے ہیں کہ جب میں امام مالک کے سامنے ورق پلٹتا تو بہت نرمی سے کہ کہیں آپ کو بارِ خاطر نہ ہو۔ یعنی اوراق پلٹنے کی جو آواز ہے اس سے آپ کی بے ادبی نہ ہو۔۔جاپان کا ایک استاد اپنا واقعہ بیان کرتا ہے کہ ایک بارہوائی اڈے پرمجھے تفتیش کے لیے روکا گیا۔ جب انہوں نے مجھ سے میرا پیشہ پوچھا ، تو میرے بتانے پر اگلے کئی گھنٹے میں نے خود کو ملک کا صدر محسوس کیا ، کیوں کہ جس طرح انہوں نے میرا اکرام اور خاطر تواضع کی عزت دی ،وہ کسی صدر سے کم نہیں تھی، باوجود اس کے کہ ان میں سے کوئی بھی میرا شاگرد نہیں تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ کو ایسی عزت بھی ملتی ہے۔۔ ایک مرتبہ علامہ اقبال کسی دکان کے تختے پر اس طرح بیٹھے تھے ایک جوتا پاؤں میں ایک زمین پر تھا۔ اتفاق سے ان کے استاد سید میر حسن شاہ وہاں سے گزرے انھوں نے فورََ ادب سے سلام کیا اور ان کے پیچھے چلتے ہوۓ اسی حالت میں گھر تک چھوڑ کر آۓ پھر دوسرا جوتا پہنا۔ علامہ اقبال کو آج ایک دنیا جانتی ہے اور وہ اسے استاد کی دعاؤں کا پھل بتاتے ہیں۔پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک بار فاتح ِ عالم، سکندر اعظم اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہا تھا کہ راستے میں ایک بڑا برساتی نالہ آیا جو تازہ موسلا دھار بارش کی وجہ سے بھرا ہوا تھا۔ یہاں استاد اور شاگرد کے درمیان تکرار شروع ہوگئی کہ پہلے نالہ پار کون کرے گا؟ سکندر بضد تھا کہ نالے کی دوسری طرف پہلے وہ جاے گا۔ بالآخر ارسطو نے ہار مان لی اور پہلے سکندر نے ہی نالہ پار کیا، جب استاد اور شاگرد نے نالہ پار کرلیا تو ارسطو قدرے سخت لہجے میں سکندر سے مخاطب ہوا اور پوچھا کہ، ’’کیا تم نے مجھ سے پہلے راستہ عبور کرکے میری بے عزتی نہیں کی؟‘‘ سکندر نے انتہائی ادب سے قدرے خم ہو کر جواب دیا، ’’ہرگز نہیں استادِ محترم، دراصل نالہ بھرا ہوا تھا اور میں یہ اطمینان کرنا چاہتا تھا کہ کہیں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے، کیونکہ ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندرِ اعظم وجود میں آئیں گے لیکن سکندر ایک بھی ارسطو کو وجود میں نہیں لا سکتا،،
اورنگزیب کے استاد
مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کو ملا احمد جیون سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ شہنشاہ بننے کے بعد ایک روز استاد کی یاد ستائی تو انہوں نے ملاقات کا پیغام بھیجا۔ دونوں نے عید کی نماز ایک ساتھ ادا کی، وقتِ رخصت اورنگزیب نے محترم استاد کو ایک چوانی (چار آنے) بصد احترام بصد ادب پیش کئے۔ اورنگزیب مملکتی مسائل میں ایسا الجھے کہ ملا احمد جیون سے ملاقات کا کوئی موقع ہی نہ ملا۔ تقریباً دس سال بعد اُن سے اچانک ملاقات ہوئی تو وہ یہ دیکھ ششدرہ رہ گیا کہ ملا احمد جیون اب علاقے کے امیر ترین زمیندار تھے۔
استاد نے شاگرد کی حیرت بھانپتے ہوئے بتایا، بادشاہ سلامت میرے حالات میں یہ تبدیلی آپ کی دی ہوئی اس ایک چوانی کی بدولت ممکن ہوئی۔اِس بات پر اورنگزیب مسکرائے اور کہا کہ،استادِ محترم آپ جانتے ہیں میں نے شاہی خزانے سے آج تک ایک پائی نہیں لی مگر اُس روز آپ کو دینے کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہ تھا، وہ چونی میں نے شاہی خزانے سے اُٹھائی تھی اور اُس رات میں نے ہی بھیس بدل کر آپ کے گھر کی مرمت کی تھی تاکہ خزانے کا پیسہ واپس لوٹا سکوں۔،خلیفہ ہارون رشید کے دو صاحبزادے امام نسائی کے پاس زیرِ تعلیم تھے۔ ایک بار استاد کے جانے کا وقت آیا تو دونوں شاگرد انہیں جوتے پیش کرنے کے لئے دوڑے، دونوں ہی استاد کے آگے جوتے پیش کرنا چاہتے تھے، یوں دونوں بھائیوں میں کافی دیر تک تکرار جاری رہا اور بالآخر دونوں نے ایک ایک جوتا استاد کے آگے پیش کیا۔ خلیفہ ہارون رشید کو اِس واقعے کی خبر پہنچی تو بصد ادب بصد احترام امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کو دربار میں بلایا۔ مامون رشید نے امام نسائی سے سوال پوچھا کہ’استادِ محترم، آپ کے خیال میں فی الوقت سب سے زیادہ عزت و احترام کے لائق کون ہے؟؟؟ مامون رشید کے سوال پر امام نسائی قدرے چونکے۔ پھر محتاط انداز میں جواب دیا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ احترام کے لائق خلیفہ وقت ہیں۔ خلیفۂ ہارون رشید کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ اتری اور کہا کہ، ہرگز نہیں استادِ محترم، سب سے زیادہ عزت کے لائق وہ استاد ہے جس کے جوتے اٹھانے کے لئے خلیفۂ وقت کے بیٹے آپس میں جھگڑیں۔
اب تو شاگرد کا استاد ادب کرتے ہیں،
سنتے ہیں ہم کھبی شاگرد ادب کرتے تھے،، اسلامی تعلیمات کے مطابق تعلیم و تعلم نہایت ہی مقدس محترم اور معزز پیشہ ہے، سامی و غیر سامی مذاہب میں نیز ان کے مسالک میں اساتذہ کو بڑا احترام حاصل رہا ہے، لیکن اسلام نے جو عزت رفعت عظمت استاد، ٹیچر کو دی ہے ۔ کسی اور مذہب نے اتنی نہیں دی۔ اسلام اور دیگر مذاہب کا بنظر عمیق تقابلی جائزہ لیں تقابلی مطالعہ کریں تو آپ باخوبی جان لیں گیں کہ اسلام نے معلم کے مقام و مرتبہ قدر منزلت کو کتنی رفعت و عظمت عصمت بلندی عطا کی ہے۔کیونکہ قارئین کرام۔ استاد تو قوم، ذات ، زبان اور رنگ و نسل الگ ہونے کے باوجود بھی اپنے شاگرد سے ایسا گہرا تعلق قائم کرتا ہے کہ شاگرد کی خوشی میں خوش ہوتا ہے، اس کے غم میں غم زدہ ہوتا ہے اور اس کی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بکثرت دعائیں کرتا رہتا ہے۔لیکن عصر حاضر میں کچھ سٹوڈنٹس ان نایاب اساتذہ کرام کے ادب و احترام کے بجاے ان کی بے ادبی کو لطف اندوزی سمجھتے ہیں۔ ایسے بے فیض تلامذہ کو اس شعر کا مصداق اتم کہنا غلط نہ ہوگا،، اب تو شاگرد کا استاد ادب کرتے ہیں،،سنتے ہیں ہم کھبی شاگرد ادب کرتے تھے،، یاد رکھیئے گا اساتذہ کا احترام اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے والدین کا۔والدین:جو دنیا میں آنے کا سبب بنتے ہیں۔ اساتذہ کرام جو عالَم مادہ سے عالَمِ روحانیت کے ساتھ رابطہ مضبوط کرتے ہیں۔والدین بولنا سکھاتے ہیں اور اساتذہ کب بولنا،کہاں بولنا اور کیسے بولنا سکھاتے ہیں۔والدین کے ساتھ ساتھ روحانی باپ(استاد)کا زیادہ کمال ہوتا ہے۔ قارئین کرام
اسلاف و سلف صالحین کی زندگیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے وجہ ہی سے بے ادبی کا مرتکب ہونے کی وجہ سے کھویا۔
استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے، لہٰذا طالبِ عالم کو چاہئے کہ وہ اپنے روحانی پدر (روحانی والد استاد) کی عزت تعظیم و توقیر احترام اپنے حقیقی والد ہی کی طرح کرے ۔ عزیز طلبہ والدین دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ کرام نازِ دوزخ اورمصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔
استاد ہی وہ ہستی ہے جو شاگرد کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لاتا ہے۔ آج اگر آپ یہ عبارت پڑھنے کے قابل ہیں تو اس میں بھی آپ کے استاد کا ہاتھ ہے۔با ادب با نصیب بے ادب بد نصیب
ہر طالبِ علم کا فرض ہے کہ وہ عجز و انکساری کو اپنا شیوہ بنائے۔اپنے استاد سے کبھی تکبر و غرور سے پیش نہ آئے،طالبِ علم کا فرض ہے کہ وہ اپنے استاد سے حسنِ ظن رکھے۔اگر استاد کسی وقت سختی کرے تو شاگرد اس سختی کو برداشت کرےکیونکہ استاد کی سختی بھی خیر خواہی کے جذبے سے سرشار ہوتی ہے۔
اگر استاد کسی وجہ سے ناراض ہوجائے تو شاگرد کے لئے لازم ہے کہ وہ استاد سے معذرت کرےا ور استاد کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرے۔استاد کے سامنے ادب کے ساتھ بیٹھنا اور ایسا طریقہ اور رویہ اختیار کرنا شاگرد کی ذمہ داری ہے کہ کسی طرح بے ادبی کی فضا پیدا نہ ہو راقم الحروف( مفتی محمد امتیاز الحق نورانی) تحدیث نعمت کے طور پہ عرض گزار ہے کہ اس ناچیز کو اپنے اساتذہ کرام کے ادب واحترام و عقیدت کی وجہ سے حدیث و فقہ وتفاسیر و تصوف کی سینکڑوں کتب فقط یک بار مطالعہ سے یاد ہوگیں حالانکہ راقم الحروف( امتیاز الحق نورانی) ذہین و فطین بھی نہیں تھا نہ ہے۔ لیکن اپنے اساتذہ کرام کی دست بوسی کو اپنا طرہ امتیاز و سند افتخار اعزاز اور باعث نجات سمجھتا تھا اور ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اساتذہ کرام کا کماحقہ ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اور ہمیشہ اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے آمین ثم آمین،
بات کر توں بعد میں پہلے پہلے توں سلام کر۔
جو تیرے استاد ہیں ان کا توں احترام کر۔ اپنے استاذ جی کا دل توں اس طرح سے شاد کر ۔جو سبق ملے تجھے توں دل لگا کہ یاد کر۔
(۔والسلام مع الاکرام مفتی محمد امتیاز الحق نورانی، مصنف مختلف دینی کتب و نصاب تخصص فی الفقہ۔(مفتی کورس

Dr Syed Sabir Ali

Dr Syed Sabir Ali

Chief Editor Weekly Nawaitaxila Islamabad

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *